دنگے
مجھے بس یہ سمجھنا ہے
کوئی دنگوں کا بھی کیا فلسفہ ہے
یہ دنگے کیسے ہوتے ہیں
انہیں کیا کوئی بھڑکاتا ہے، یا خود سے بھڑکتے ہیں
یہ کیسے لوگ ایک دن بھیڑ کی صورت میں ڈھلتے ہیں
گھروں سے اپنے اپنے سوچ کر وہ کیا نکلتے ہیں
وہ گھر، جس کو وہ بارش، دھوپ میں سایہ سمجھتے ہیں
تحفظ کا بڑا مضبوط سرمایہ سمجھتے ہیں
جہاں وہ ساتھ میں اپنے سبھی پیاروں کے رہتے ہیں
کسی مذہب کے ہوں، دِکھنے میں تو انسان لگتے ہیں
مگر نفرت سے جب بھرتے ہیں تو شیطان لگتے ہیں
جنہیں اچھے، برے، سچ، جھوٹ سے مطلب نہیں ہوتا
کہ شیطانوں کا تو آخر کوئی مذہب نہیں ہوتا
وہ بس شیطان ہوتے ہیں
جنہیں پھر غم نہیں ہوتا
کسی کا گھر جلانے میں
کسی کا خوں بہانے میں
کسی کی ہڈیوں کو توڑنے میں
کسی کی آبرو کو لوٹنے میں
انہیں پھر سسکیاں، آہیں بھی تڑپاتی نہیں ہیں
کسی معصوم کی چیخیں بھی دہلاتی نہیں ہیں
یہ کیسا فلسفہ ہے
جسے انسانیت کے خون سے لکھا گیا ہے
جسے نفرت پرستوں نے لکھا ہے
جسے پڑھ کر کئی انسان شیطاں ہو گئے ہیں
فقط ایک بھیڑ بن کر کھو گئے ہیں
مجھے اس بھیڑ سے یہ پوچھنا ہے
کہ پھر جب اپنے گھر وہ لوٹتے ہیں
تو کیا واپس وہ پھر انسان ہوتے ہیں
تو کیا وہ اپنے بستر پر سکوں کی نیند سوتے ہیں
تحریم چودھری
No comments:
Post a Comment