مِری خواہش، مِری حسرت، کوئی معنی نہیں رکھتی
میں رکھوں جس سے جو نسبت، کوئی معنی نہیں رکھتی
سمجتا تھا وہم پہلے،۔ یقین اب ہو گیا مجھ کو
تِرے آگے مِری چاہت کوئی معنی نہیں رکھتی
ادھر میری طرف دیکھو میں تم سے ہی مخاطب ہوں
مِرے جذبات کی شدت کوئی معنی نہیں رکھتی
تجھے اک پل میں سوچا ہے کئی گھنٹوں بھی پہروں تک
تِرے نزدیک یہ مدت کوئی معنی نہیں رکھتی
میں جتنی عاجزی کر لوں مگر منفی مزاجوں میں
مِری یہ سوچ بھی مثبت کوئی معنی نہیں رکھتی
ملیں گے حسن کے ایسے پجاری بھی کبھی تم کو
وہ جن کے سامنے سیرت کوئی معنی رکھتی
ہمیں رسوا کرو بے شک، اجازت ہے تمہیں، جاؤ
مگر سستی سی یہ شہرت کوئی معنی نہیں رکھتی
رہے گا حشر تک قائم اثر! میری محبت کا
قیامت تک تِری نفرت کوئی معنی نہیں رکھتی
وہ بے حِس ہے نشاط اس سے وفائیں چاہتے ہو تم
تمہاری بات یہ حضرت کوئی معنی نہیں رکھتی
نشاط عبیر
No comments:
Post a Comment