Thursday, 31 March 2022

وہ سر دشت مری پیاس بجھا دیتا ہے

 وہ سرِ دشت مِری پیاس بجھا دیتا ہے

موجِ دریا میں دوبارہ بھی پھرا دیتا ہے

دل مِرا پہلے محبت سے پریشان ہے اور

اک نیا شخص محبت کی صدا دیتا ہے

جو تمہیں مفت ملے، عشق نہیں آبِ سبیل

جوئے شیریں ہے یہ فرہاد کھپا دیتا ہے

بات کرنی ہے اگر تجھ کو تو پھر سوچ کے کر

کیونکہ اک لفظ بھی نسلوں کا پتہ دیتا ہے

اک تناسب سے مجھے یاد وہ کرتا ہے مگر

میں اسے یاد دلاؤں تو بھلا دیتا ہے

ایرے غیرے سے ستائش کی تمنا ہی نہیں

کامل ایماں ہے کہ عزت تو خدا دیتا ہے

تجھ پہ سارا یہ کرم رب کا ہے شائق جو تجھے 

ہر نئی نظم میں لفظوں کی عطا دیتا ہے


شائق سعیدی

No comments:

Post a Comment