سوراخوں سے رستی سیاہی
جوتے میں اتنے سوراخ ہیں
جتنے منہ میں دانت نہیں
بغیر ازاربند کے شلوار
دھوتی بن گئی ہے
اور کُرتے میں جیب کا پیوند حسرت
آوارہ کتوں کی چربی میں تلے
پکوڑے کھاتے کھاتے
خدائی بے نیازی طاری ہے
میں دیکھتا ہوں
وہ میرا خون سیاہی میں بدلتے ہیں
کفر کے فتوے
غداری کے سرٹیفیکیٹ
اور ناقابلِ فہم تقریریں لکھنے کے لیے
محبوباؤں اور
دور دراز کی تعلیم گاہوں میں مقیم
اپنے نونہالوں کے اخراجات پر دستخط کرنے کے لیے
اور اسلحہ ساز کارخانوں کے
سائین بورڈ پینٹ کرنے کے لیے
لیکن
چربی تو کسی بھی دماغ کو چڑھ سکتی ہے
عمامہ پہنے اونٹ کی ہو
یا آوارہ کتے کی
حسین عابد
No comments:
Post a Comment