Wednesday, 30 March 2022

میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا

 میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا

اور آنے والے موسموں کے خواب دیکھتا رہا

کسی نے مجھ سے کہہ دیا تھا زندگی پہ غور کر

میں شاخ پر کھلا ہوا گلاب دیکھتا رہا

کھڑا تھا میں سمندروں کو اوک میں لیے ہوئے

مگر یہ شخص عجیب تھا سراب دیکھتا رہا

وہ اس کا مجھ کو دیکھنا بھی اک طلسم تھا مگر

میں اور اک جہاں پس نقاب دیکھتا رہا

وہ گہری نیند سوئی تھی میں نیند سے لڑا ہوا

سو رات بھر سحاب و ماہتاب دیکھتا رہا

سیاہ رات میں رفیق دشمنوں سے جا ملے

میں حوصلوں کی ٹوٹتی طناب دیکھتا رہا


افضال فردوس

No comments:

Post a Comment