ماں جو بیوی تھی
گلی میں پیار سے دیکھتی گمنام حسینہ
ہماری کمزوریوں سے واقف ہے
وہ ہمیں اپنے جال میں بن لے گی
ہم اس لمحے کی قید میں ہیں
وہ جانتی ہے کہ اس کی غفلت ہماری جان لے گی
ایک طوائف
آپ کو مکمل تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
میری بیوی نے ہنستے ہوئے کہا؛
آپ لوگوں پہ نظمیں لکھتے ہیں
مجھ پہ بھی کوئی نظم لکھیں
"آج مدر ڈے ہے"
میں نے خفگی سے کہا؛
"تو کوئی میری ماں ہے"
اس نے خاموشی سے کہا؛
"میرے چار بچے ہیں"
مجھے حیرت ہوئی
میں نے کبھی اس پہ غور نہیں کیا تھا
ہم مشرقی لوگ طوائفوں کے کوٹھوں پہ پڑے رہتے ہیں
محبوباؤں کی یاد سے مشت زنی کرتے ہیں
"اور بیوی "وہ تو گھر کی مالکن ہے
ہماری زوجین
خاموشی سے زندگی گزارتی ہیں
اور ہماری خدمت گزاری میں مصروف رہتی ہیں
پھر جب بڑھاپا آتا ہے
تو ہم ان کی گود میں بچے کی طرح سر رکھ کے روتے ہیں
بیوی کو ماں کے روپ میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی
ماں پہلے بیوی تھی
ایک ہی چشمے کے دو سوتے ہیں
ایک پستان سے باپ
دوسرے سے بیٹا سیراب ہوتا ہے
ماں کوئی رشتہ نہیں ایک دیوی کا کردار ہے
بیچ بیچ ہم بچھڑی ہوئی کسی محبوبہ کہ غم میں
غزلیں نوچ رہے ہوتے ہیں
بوڑھے گِدھ کی طرح
مِری ہوئی لاشوں پہ ضیافت اڑاتے ہیں
وہ چپکے سے کمرے میں آتی ہے
ہماری کتابیں درست کرتی ہے
دور کسی زمانے میں ہم ایک بوسے کو روتے ہیں
وہ بچوں کو چپ کراتی ہے
"دیکھتے نہیں بابا لکھ رہے ہیں"
وہ بوسہ جو جلدی میں دیا نہ جا سکا ہو
اس کی تکان غزل میں ہمیں مار دیتی ہے
خواب سے خالی پیکر کو کھوجتے
آنکھیں تھک جاتی ہیں
تخیل ہانپ جاتا ہے
ماں کی آنکھیں، رخسار، ہونٹ، پیشانی آواز تک
وقت کھا چکا ہے
وہ کھڑکی کا پردہ درست کرتی ہے
تا کہ روشنی ہمیں ڈسٹریکٹ نہ کرے
اچانک میں ماں کو ڈھونڈنے نکلا
چھوٹے کمرے میں دیکھا
دیوار سے لگی الماری میں
کپڑے سیدھے کر رہی ہو گی
بڑے کمرے میں دیکھا
وہ ابھی یہیں کہیں تھی
کہیں چولہے کے پاس بیٹھی ہو گی
یا بیرونی دروازے کے پاس "کُھرے" میں بیٹھی
برتن مانجھ رہی ہو گی
میری بیوی پوچھتی؛ کیا ڈھونڈ رہے ہیں
"میں نے کہا "ماں
وہ مسکرا دیتی ہے
ہم نظموں کے تازہ پیکر بناتے ہیں
شاعری سے سٹم سیلز لے کے
ان کی تجسیم کرتے ہیں
ان کہی محبتوں کے کورے کاغذوں پہ
بھولی بسری محبتوں کے خطوط دہراتے ہیں
اس دوران وہ چپکے سے ہمارے پاس
چائے کا کپ رکھ دیتی ہے
"ٹھنڈی نہ ہو، پی لیجئے گا"
گھر میں داخل ہوتے ہی پہلی چیز ماں ہے
جو آپ تلاش کرتے ہیں
کیوں؟ ماں گم بھی ہو جاتی ہے
میں نے ایک روتے ہوئے بچے سے پوچھا
وہ اور رونے لگا
ایک بوڑھے سے پوچھا جو نسیاں میں مبتلا تھا
اس نے مجھے ماں کی گندی گالی دی
ہم خیال کی چسکی لیتے ہیں
ان ہاتھوں کو سوچتے ہیں
جن پہ حنائی رنگوں سے ایک کنواری
ہمارا نام لکھتی تھی
گلی کے موڑ پہ ایک لمحہ رکتی تھی
قاتل نگاہوں سے مُڑتے مُڑتے
ایک دفعہ پھر ہمیں تکتی تھی
کمرے سے نکلتے ہوے وہ ہمیں یاد کراتی ہے
"سو جائیے گا، کہیں آپ کو مائیگرین نہ ہو"
غزل کے اشعار مکمل ہو چکے ہیں
کچھ آمد ہے، کچھ آورد تھی
نظم کو خوبصورت عنوان دیتے ہوئے
خیال کی صورت گری ممکن ہو جاتی ہے
نظم کا بستر گرم کرتے کرتے
ہمیں یاد ہی نہیں رہتا
کہ چائے کپ میں پڑی ٹھنڈی ہو گئی ہے
مائیگرین جو ہے مسلسل بڑھتا جاتا ہے
بیگم والدہ کے بستر پہ پڑی سو رہی تھی
کہنے کو وہ بیوی ہے
لیکن میرے بچوں کی ماں ہے
لیکن میری ماں کہاں ہے
طاہر راجپوت
No comments:
Post a Comment