میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے
دیکھا جو آئینہ تو ہنسی آ گئی مجھے
میری نمود کیا ہے بس اک تودۂ سیاہ
کوندی کبھی جو برق تو چمکا گئی مجھے
جیسے میں اک سبق تھا کبھی کا پڑھا ہوا
اٹھی جو وہ نگاہ تو دہرا گئی مجھے
ہر صبح میں نے خود کو بمشکل بہم کیا
آئی جو غم کی رات تو بکھرا گئی مجھے
میں دشتِ آرزو پہ گھٹا بن کے چھا گیا
گرمی تِرے وجود کی برسا گئی مجھے
یہ فرطِ انتظار ہے یا شدتِ ہراس
خاموشیوں کی چاپ بھی چونکا گئی مجھے
تیری نظر بھی دے نہ سکی زندگی کا فن
مرنے کا کھیل سہل تھا، سکھلا گئی مجھے
نشتر خانقاہی
No comments:
Post a Comment