Tuesday 29 March 2022

شناسائے تار رگ جاں نہیں تھا

 شناسائے تار رگ جاں نہیں تھا

مجھے اپنے ہونے کا عرفاں نہیں تھا

وہاں میں نے خوشبو کی بنیاد رکھی

جہاں پھول کھلنے کا امکاں نہیں تھا

تِرے ظرف کی آزمائش تھی ورنہ

مجھے زیر کر لینا آساں نہیں تھا

مجھے میری مٹی نے آواز دی تھی

میں اونچائیوں سے ہراساں نہیں تھا

سخنداں تو بزم سخن میں بہت تھے

مگر کوئی تجھ سا غزل خواں نہیں تھا

تِرے عشق کی یہ نوازش ہے ورنہ

مِرے راستے میں بیاباں نہیں تھا

میں ٹھہرا ہوں دنیا کے میلے میں زاہد

وہاں لطف کا کوئی ساماں نہیں تھا


زاہد وارثی

No comments:

Post a Comment