شناسائے تار رگ جاں نہیں تھا
مجھے اپنے ہونے کا عرفاں نہیں تھا
وہاں میں نے خوشبو کی بنیاد رکھی
جہاں پھول کھلنے کا امکاں نہیں تھا
تِرے ظرف کی آزمائش تھی ورنہ
مجھے زیر کر لینا آساں نہیں تھا
مجھے میری مٹی نے آواز دی تھی
میں اونچائیوں سے ہراساں نہیں تھا
سخنداں تو بزم سخن میں بہت تھے
مگر کوئی تجھ سا غزل خواں نہیں تھا
تِرے عشق کی یہ نوازش ہے ورنہ
مِرے راستے میں بیاباں نہیں تھا
میں ٹھہرا ہوں دنیا کے میلے میں زاہد
وہاں لطف کا کوئی ساماں نہیں تھا
زاہد وارثی
No comments:
Post a Comment