Monday 28 March 2022

بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے

 بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے

پھول بن کے آئی ہے

گلشنوں میں اتری ہے

آنسوؤں میں اتری ہے

دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے

چل دئیے خطا بن کر

عشق کی حکایت کے لوگ بے وفا بن کر

جسم و جاں کے پردے میں قیس کی قبا بن کر

راستے کی مٹی پر عکس ہیں دعاؤں کے

کچھ قدم ہیں غیروں کے کچھ ہیں آشناؤں کے

بارہا گنے ہم نے قافلے جفاؤں کے

عکس بے گناہ ہوں گے

نام بارگاہوں کے 

کس قلم نے لکھے ہیں مشورے ہواؤں کے


جیلانی کامران

No comments:

Post a Comment