بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے
پھول بن کے آئی ہے
گلشنوں میں اتری ہے
آنسوؤں میں اتری ہے
دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے
چل دئیے خطا بن کر
عشق کی حکایت کے لوگ بے وفا بن کر
جسم و جاں کے پردے میں قیس کی قبا بن کر
راستے کی مٹی پر عکس ہیں دعاؤں کے
کچھ قدم ہیں غیروں کے کچھ ہیں آشناؤں کے
بارہا گنے ہم نے قافلے جفاؤں کے
عکس بے گناہ ہوں گے
نام بارگاہوں کے
کس قلم نے لکھے ہیں مشورے ہواؤں کے
جیلانی کامران
No comments:
Post a Comment