Thursday 31 March 2022

مرنے سے گھبرانا کیسا موت تو سب کو آنی ہے

 مرنے سے گھبرانا کیسا موت تو سب کو آنی ہے

دنیا سے کیا پیار بڑھانا، دنیا کیا ہے، فانی ہے

کچھ آنکھوں میں دھوپ کھلی ہے، کچھ میں رات اندھیری سی

اپنی اپنی خشکی سب کی،۔ اپنا اپنا پانی ہے

کتنے برسوں بعد وہ مجھ سے محفل میں ٹکرایا ہے

ہونٹوں پر مسکان ہے لیکن آنکھوں میں ویرانی ہے

تم سے ہے اک کام ضروری، فرصت ہو تو فون کرو

بات ذرا سے دل کی ہے پر قصہ کچھ طولانی ہے ہے

روز جھمیلے آ جاتے ہیں کشتی اور ساحل کے بیچ

دریا خود الجھا، الجھا ہے، موجوں میں طغیانی ہے

بھول کے مجھ کو خوش ہو تم بھی میں بھی تو غمگین نہیں

موسم سے آواز گھٹی ہے،۔ اشک نہیں یہ پانی ہے

اس کا چھوڑ کے جانا مجھ کو کوئی انوکھی بات نہ تھی

دل کو بھی افسوس نہیں ہے، ہاں تھوڑی حیرانی ہے

سب سے مشکل کام جہاں میں زندہ رہنا ہے، شاید

جینا ہی دشوار عمل ہے،۔ مر جانا آسانی ہے


حنا رضوی حیدر

No comments:

Post a Comment