Wednesday 30 March 2022

میں تو عورت ہوں مجھے اپنا بھرم رکھنا ہے

 میں تو عورت ہوں، مجھے اپنا بھرم رکھنا ہے

دل کو ہر حال میں ماٸل بہ کرم رکھنا ہے

میری فطرت میں تو پہلے سے وفا ہے شامل

کیوں زمانے کو مِرا سر بھی یہ خم رکھنا ہے

دل میں دریا ہے مِرے اور لبوں پر شبنم

حکم کیوں ہے کہ ان آنکھوں کو بھی نم رکھنا یے

جسم فطرت کی طرح ہے مِرا نازک لیکن

حوصلوں میں مجھے فولاد سا دم رکھنا ہے

اپنے رب سے سبھی روداد سفر کہہ پاؤں

آبلے پاؤں میں آنکھوں میں ورم رکھنا ہے

حسنِ اخلاق، وفا،۔ عشق، طہارت، ممتا

مجھ کو اک ذات میں ہر وصف یہ زم رکھنا ہے

دل دکھانے کی نہ دنیا میں سزا دوں گی اسے

حشر میں قصۂ احوالِ ستم رکھنا ہے

میں نے اب سیکھ لیا خود کے لیے بھی جینا

جذبہ صبر ذرا ذہن میں کم رکھنا ہے


تحریم چودھری

No comments:

Post a Comment