آج ہی بس نہیں، اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
قد مِرا، تیرے برابر بھی تو ہو سکتا ہے
ضبط کی قید میں وہ شخص پڑا ہے کب سے
وہ کبھی قید سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
دستِ قاضی میں بظاہر جو قلم ہے یارو
تیر، تلوار یا خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
میرے دشمن سے مِرے حق میں وہ لڑتا ہے مگر
اس کے نیزے پہ مِرا سر بھی تو ہو سکتا ہے
موم جم جائے تو فولاد نہیں بن جاتا
جو پگھل جائے وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہو وقت سے جھگڑا میرا
میرا مقروض مقدر بھی تو ہوسکتا ہے
اس نے دامن جو چھڑایا ہے تِرے ہاتھوں سے
یہ کوئی خواب کا منظر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ بھی اک نقص نظر ہے کہ بظاہر کوئی
ہم سے بدتر ہو، وہ برتر بھی تو ہو سکتا ہے
بعض آنکھوں سے رہو دور تو اچھا ہو گا
ایسی آنکھوں میں سمندر بھی تو ہو سکتا ہے
آسرا دیتا رہا ہے جو حوادث میں بھی
وہ فرشتے کا کوئی پر بھی تو ہو سکتا ہے
تم ابھی سے نہ لڑو حشر رساؤں سے یہاں
کام اے دوست یہ مر کر بھی تو ہو سکتا ہے
قیس کے پاؤں فقط دشت سے مانوس نہیں
اس کے قدموں میں مِرا گھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم فقط جسم ٹٹولو نہ مِرے چارہ گر
زخم ہے، روح کے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ پیتا ہو سدا آب حیات
شیخ کے ہاتھ میں ساغر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ سبھی لوگ جسے اپنا خدا کہتے ہیں
پاس اس کے کوئی منتر بھی تو ہو سکتا ہے
جس کو منزل کا نشاں سمجھا ہے عابد تُو نے
وہ کوئی راہ کا پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
عابد بنوی
No comments:
Post a Comment