Wednesday 30 March 2022

مجھے کچھ یاد ہے کہ ہم برابر چل رہے ہیں

 مجھے کچھ یاد ہے

کہ ہم برابر چل رہے ہیں 

گفتگو میں پہر ضائع تک نہیں کرتے

سمندر ریت پہ بہتا ہوا 

پھر تیرے قدموں تک جو آتا ہے 

مچل کے لوٹ جاتا ہے

یہ درباری کبوتر 

اب ہماری چاپ کو محسوس کرتے ہیں

یہ چلتی گاڑیاں اک نظم گو کی چال میں 

ہم کو بلاتی ہیں

مگر وہ وقت تو اب جا چکا ہے

ہم ہمیں کو ڈھونڈنے میں جا بجا نکلیں

سمندر یا کبوتر یا پرانی کھٹکھٹاتی گاڑیاں 

اب فخر کرتی ہیں

کہ ہم جن کی بدولت

آج پھر اک دوسرے میں کھو چکے ہیں

خبر دو ساحلوں ان گاڑیوں

پھر ان پرندوں کو

تمہارا شکریہ وہ ساتھ رہنے کا

کہ ہم اک دوسرے کے ہو چُکے ہیں


خیال مہدی

No comments:

Post a Comment