مجھے کچھ یاد ہے
کہ ہم برابر چل رہے ہیں
گفتگو میں پہر ضائع تک نہیں کرتے
سمندر ریت پہ بہتا ہوا
پھر تیرے قدموں تک جو آتا ہے
مچل کے لوٹ جاتا ہے
یہ درباری کبوتر
اب ہماری چاپ کو محسوس کرتے ہیں
یہ چلتی گاڑیاں اک نظم گو کی چال میں
ہم کو بلاتی ہیں
مگر وہ وقت تو اب جا چکا ہے
ہم ہمیں کو ڈھونڈنے میں جا بجا نکلیں
سمندر یا کبوتر یا پرانی کھٹکھٹاتی گاڑیاں
اب فخر کرتی ہیں
کہ ہم جن کی بدولت
آج پھر اک دوسرے میں کھو چکے ہیں
خبر دو ساحلوں ان گاڑیوں
پھر ان پرندوں کو
تمہارا شکریہ وہ ساتھ رہنے کا
کہ ہم اک دوسرے کے ہو چُکے ہیں
خیال مہدی
No comments:
Post a Comment