Tuesday, 29 March 2022

کچھ دل کے اضطراب کا ہی حق ادا بھی ہو

کچھ دل کے اضطراب کا ہی حق ادا بھی ہو

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

اس دل کو چاہیے ہے کوئی ایسا دل نشیں

جس کو ہمارے درد سے صدمہ ذرا بھی ہو

ممکن ہے ہم سفر ملے پھر درد آشنا

بانٹے وہ درد میرے سخن آشنا بھی ہو

برسوں سے دل رہا ہے طلبگار درد کا

یہ درد تو پرانا ہے اب کچھ نیا بھی ہو

اس زخم کو بیان کریں کس ادا سے ہم

یعنی نظر جو آئے نہ بالکل ہرا بھی ہو

کرتے تو ہیں ستم وہ مگر چاہتے بھی ہیں

لب پر ہمارے ان کے لیے پھر دعا بھی ہو

تم لکھ رہے ہو جس کے لیے دل سے یوں غزل

کیا ہی مزہ عمر ہو جو وہ پڑھ رہا بھی ہو


عمر یعقوب

No comments:

Post a Comment