کچھ دل کے اضطراب کا ہی حق ادا بھی ہو
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
اس دل کو چاہیے ہے کوئی ایسا دل نشیں
جس کو ہمارے درد سے صدمہ ذرا بھی ہو
ممکن ہے ہم سفر ملے پھر درد آشنا
بانٹے وہ درد میرے سخن آشنا بھی ہو
برسوں سے دل رہا ہے طلبگار درد کا
یہ درد تو پرانا ہے اب کچھ نیا بھی ہو
اس زخم کو بیان کریں کس ادا سے ہم
یعنی نظر جو آئے نہ بالکل ہرا بھی ہو
کرتے تو ہیں ستم وہ مگر چاہتے بھی ہیں
لب پر ہمارے ان کے لیے پھر دعا بھی ہو
تم لکھ رہے ہو جس کے لیے دل سے یوں غزل
کیا ہی مزہ عمر ہو جو وہ پڑھ رہا بھی ہو
عمر یعقوب
No comments:
Post a Comment