محبت کا دھواں آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتا ہے
کسی رستے سے غم گزرے نشانی چھوڑ جاتا ہے
وہ جتنی بار بھی ملتا ہے، پہچانا نہیں کرتا
مگر آنکھوں میں تصویریں پرانی چھوڑ جاتا ہے
اسی باعث تو ہم بے ساختہ ہنسنے سے ڈرتے ہیں
کبھی کا قہقہہ بھی نوحہ خوانی چھوڑ جاتا ہے
ہماری گفتگوؤں سے بھی وہ قائل نہیں ہوتا
اور اپنی خامشی کے بھی معنی چھوڑ جاتا ہے
بھروسہ جس پہ ہو اس سے توقع کوئی مت رکھنا
یہی اک سائباں بے سائبانی چھوڑ جاتا ہے
بچھڑ کر بھی ہم ایسے شخص سے بچھڑا نہیں کرتے
جو اک فقرہ ادا کر کے کہانی چھوڑ جاتا ہے
مظفر موت بھی کم خوبصورت تو نہیں ہوں گی
جو اس کو دیکھتا ہی زندگانی چھوڑ جاتا ہے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment