Wednesday, 30 March 2022

کتنا بیکار تمنا کا سفر ہوتا ہے

کتنا بے کار تمنا کا سفر ہوتا ہے

کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے

یوں میں سہما ہوا گھبرایا ہوا رہتا ہوں

جیسے ہر وقت کسی بات کا ڈر ہوتا ہے

دن گزرتا ہے تو لگتا ہے بڑا کام ہوا

رات کٹتی ہے تو اک معرکہ سر ہوتا ہے

لوگ کہتے ہیں مقدر کا نوشتہ جس کو

ہم نہیں مانتے ہر چند مگر ہوتا ہے

سیفؔ اس دور میں اتنا بھی غنیمت سمجھو

قید میں روزن دیوار بھی در ہوتا ہے


سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment