میں فرد کسی اونچے گھرانے کا نہیں تھا
سو تجھ کو پتا میرے ٹھکانے کا نہیں تھا
جس روز اجل پہنچ گئی گھر پہ ہمارے
وہ وقت مِرے باپ کے جانے کا نہیں تھا
اس دور میں کی بھائی نے کنبے کی کفالت
بچپن کا زمانہ جو کمانے کا نہیں تھا
میں نے بھی یتیمی میں کیا کارِ پیمبر
کچھ شوق مجھے گَلہ گھمانے کا نہیں تھا
اک شخص کے بدلے ہوئے تیور نہ سمجھتا
اتنا بھی میں پتھر کے زمانے کا نہیں تھا
اک لفظ پہ قائم تھا وہ کاغذ کا تعلق
وہ لمحہ مگر ہوش گنوانے کا نہیں تھا
اک سُر پہ تھرکتا ہوا پہنچا میں خدا تک
گو حکم مجھے ناچنے گانے کا نہیں تھا
چپ چاپ میں جنت سے نکل آیا تھا عرفی
دانائی کا بھوکا تھا میں، دانے کا نہیں تھا
عرفان عرفی
No comments:
Post a Comment