Tuesday 29 March 2022

مجھ کو ترا خیال بڑی دیر تک رہا

مجھ کو تِرا خیال، بڑی دیر تک رہا

پھر اس میں اعتدال، بڑی دیر تک رہا

اس کو وفورِ غم نے ستایا تھا، عمر بھر

مجھ کو یہی ملال، بڑی دیر تک رہا

میں نے کہا کہ دِید کی خیرات ہو عطا

میرا یہی سوال، بڑی دیر تک رہا

اس کو بڑے خلوص سے اب چومتا ہے وہ

اک خط جو پائمال، بڑی دیر تک رہا

کاشف مجھے تھا زعمِ آنا خودسری، مگر

اس کو بھی یہ کمال، بڑی دیر تک رہا


کاشف حنیف

No comments:

Post a Comment