Tuesday, 29 March 2022

جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے

جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے

ان سے جینے کا ہُنر جانا ہے

کس نے سوچا تھا کہ خُود سے مل کر

اپنی آواز سے ڈر جانا ہے

حادثا موت نہیں انساں کی

حادثہ خواب کا مر جانا ہے

حضرت دل کو منانا ہو گا

آج پھر اس کی ڈگر جانا ہے

کچھ ہوا، آگ، زمیں، آب، فلک

پھر مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے

ایک بالشت نہیں جس کی چھاؤں

تم نے اس کو بھی شجر جانا ہے

ساتھ رکھ مجھ کو بڑھا لے قیمت

گو مجھے تُو نے صِفر جانا ہے

آج پھر تم کو نہیں ڈھونڈ سکا

دل کو صحرا میں پسر جانا ہے

آپ بھی سنیے؛ کہا ہے دل نے

''آج ہر حد سے گُزر جانا ہے''

سلسلہ توڑ رہے ہو کیوں کر

سلسلہ خُود ہی بکھر جانا ہے

یاد کی گھاس تو گِیلی ہے بہت

اب دُھواں دل پہ پسر جانا ہے

دل کو سیراب کیا اشکوں سے

ہم نے رونے کا ہُنر جانا ہے

اپنا جو بھی تھا وہ سب چُھوٹ گیا

یہ مگر وقتِ سفر جانا ہے


نونیت شرما

No comments:

Post a Comment