آبلہ
وہ رات کتنی عجیب تھی
کٹ نہیں رہی تھی
کہ وقت ہی جیسے رک گیا تھا
زبان چپ تھی
نگاہیں اک داستان محرومیٔ تمنا
سنا رہی تھیں
بساطِ آغوش بجھ گئی تھی
ہمارا ہی انتظار تھا
فرشِ دلبری کو
مگر ہم اپنی شرافتِ نفس کی
گراں باریوں سے مجبور ہو گئے تھے
خود اپنی فطرت سے
اس قدر دور ہو گئے تھے
کہ دل کی آواز سن نہ پائے
لہو کی گردش بھی وقت کے ساتھ
تھم گئی تھی
ہم اس کے حق میں وہ آبلہ تھے
جو پُھوٹتا ہے نہ سُوکھتا ہے
راشد آزر
No comments:
Post a Comment