Monday 28 March 2022

وہ رات کتنی عجیب تھی کٹ نہیں رہی تھی

 آبلہ


وہ رات کتنی عجیب تھی

کٹ نہیں رہی تھی

کہ وقت ہی جیسے رک گیا تھا

زبان چپ تھی

نگاہیں اک داستان محرومیٔ تمنا

سنا رہی تھیں

بساطِ آغوش بجھ گئی تھی

ہمارا ہی انتظار تھا

فرشِ دلبری کو

مگر ہم اپنی شرافتِ نفس کی

گراں باریوں سے مجبور ہو گئے تھے

خود اپنی فطرت سے

اس قدر دور ہو گئے تھے

کہ دل کی آواز سن نہ پائے

لہو کی گردش بھی وقت کے ساتھ

تھم گئی تھی

ہم اس کے حق میں وہ آبلہ تھے

جو پُھوٹتا ہے نہ سُوکھتا ہے


راشد آزر

No comments:

Post a Comment