بعد نمود کچھ نہ رہا باغباں کے پاس
بیٹھا ہے کس خیال میں گم گلستاں کے پاس
وہ لالہ فام شبنمی گُل رُو وہ شوخ شوخ
یاد بہار لوٹ کے آئی خزاں کے پاس
بستی اجاڑ ہو گئی بس اس خیال سے
دل ہی نہ ہو گا دل کے میرے پاسبان کے پاس
سایہ نہیں جو سر پہ میرے کیا گلا کوئی
دیوار و در سبھی ہیں میرے آشیاں کے پاسفر
دل کی کبھی کہوں جو کبھی دل کی میں سنوں
فرصت کہا رہی ہے میرے مہرباں کے پاس
خون گلو میں گھول دے جو مژدۂ حیات
لے آؤ کوئی ایسا بھی اس نیم جاں کے پاس
مخفی رہی سیاہئ خلوت کی ہر خبر
جلتا رہا چراغ میرے آستاں کے پاس
تحریم چودھری
No comments:
Post a Comment