نکلا ہے چاند، شب کی ملاقات بھی گئی
یعنی، حضور! طرزِ عنایات بھی گئی
اس نے سبھی وصال کے وعدے، بھلا دئیے
سو بات کی تھی ایک جو، وہ بات بھی گئی
اس نے کسی کو اپنا مقابل بنا لیا
شہ تو گئی تھی پہلے ہی، اب مات بھی گئی
خوں بار خنجروں نے بھی سستا لیا بہت
جس رات جنگ بند تھی، وہ رات بھی گئی
چہرے کا حسن وقت نے دُھندلا دیا ہے یار
زلفوں نے جو لگائی تھی وہ گھات بھی گئی
ہم ترکِ عشق کر کے بھی گھاٹے میں رہ گئے
قلب و نظر کی ساری مدارات بھی گئی
دانش کمال! بوریا اپنا اٹھائیے
پہلے جو مل رہی تھی وہ خیرات بھی گئی
دانش اثری
No comments:
Post a Comment