کچے گھر کی دیواروں پر
اپنے کچھ موہوم خیالوں کے خامے سے
نقش بناتا رہتا ہوں
کچھ بے معنی سے نقش
جنہیں منظوم کروں تو
تاج محل کی چھوٹی سی تصویر بنے
اک چھوٹی سی تصویر
کہ جس میں تاج سجائے اک شہزادہ
پھٹے پرانے کپڑوں میں جب مسکائے تو
محل کی ساری دیواروں پر
جگمگ جگمگ جگنو دوڑیں
پہلو میں اک سانولی رنگت کی شہزادی
تاج محل میں رنگ بھرے
اک بادِ خنک پھلواری سے دو پھول چنے
اور شہزادہ پھر عرقِ گلاب سے منہ دھوئے
لیکن یہ کیا؟
کہ یک دم بادل چیختے ہیں
اور گھر کی چھت سے ٹپکتی غربت
میرے چہرے پر گرتی ہے
سارے نقش بکھر جاتے ہیں
غربت خوابوں پر ہنستی ہے
میں بے کس کہ کُل سرمایہ کچی چھت ہے
اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں
کچی چھت بھی گر جاتی ہے
عباس علوی
No comments:
Post a Comment