Tuesday, 29 March 2022

سارے نقش بکھر جاتے ہیں غربت خوابوں پر ہنستی ہے

 کچے گھر کی دیواروں پر

اپنے کچھ موہوم خیالوں کے خامے سے

نقش بناتا رہتا ہوں

کچھ بے معنی سے نقش

جنہیں منظوم کروں تو 

تاج محل کی چھوٹی سی تصویر بنے

اک چھوٹی سی تصویر

کہ جس میں تاج سجائے اک شہزادہ 

پھٹے پرانے کپڑوں میں جب مسکائے تو 

محل کی ساری دیواروں پر 

جگمگ جگمگ جگنو دوڑیں

پہلو میں اک سانولی رنگت کی شہزادی 

تاج محل میں رنگ بھرے

اک بادِ خنک پھلواری سے دو پھول چنے

اور شہزادہ پھر عرقِ گلاب سے منہ دھوئے

لیکن یہ کیا؟

کہ یک دم بادل چیختے ہیں

اور گھر کی چھت سے ٹپکتی غربت 

میرے چہرے پر گرتی ہے

سارے نقش بکھر جاتے ہیں

غربت خوابوں پر ہنستی ہے

میں بے کس کہ کُل سرمایہ کچی چھت ہے

اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں

کچی چھت بھی گر جاتی ہے


عباس علوی

No comments:

Post a Comment