Tuesday 29 March 2022

جتنے الم ہیں میرے دل ناتواں کے پاس

 جتنے الم ہیں میرے دلِ ناتواں کے پاس

اتنے الم تو ہوں گے نہ کون و مکاں کے پاس

آزار ہیں، غضب ہیں، مظالم ہیں، قہر ہیں

کیا کچھ نہیں ہمارے لیے آسماں کے پاس

کیسے ہو کوئی وصل کی تدبیر کارگر؟

سو حیلے اور بہانے ہیں اس بدگماں کے پاس

بیٹھے ہیں میری گھات میں یوں درد و رنج و غم

جیسے بچھے ہوں جال کسی آشیاں کے پاس

پیتا ہوں صبح و شام جو اس چشمِ مست سے

ایسی کہاں ہے مے کسی پیرِ مغاں کے پاس

خواہش ہے خوشبوؤں کے جلو میں بسر کروں

اِک گھر بناؤں جا کے تِرے آستاں کے پاس

ناصر کو راس آئی نہیں محفلِ نشاط

اب روز بیٹھتا ہے کسی نوحہ خواں کے پاس


فیض الحسن ناصر

No comments:

Post a Comment