Tuesday, 29 March 2022

نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی

 نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در، نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی

مگر اب بھی میری زباں پہ ہے وہی داستاں سن و سال کی

چلو بال و پر کو سمیٹ لیں کریں فکر اب کسی ڈال کی

یہ غروب مہر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

سبھی موسموں سے گزر گیا کوئی بوجھ دل پہ لئے ہوئے

مجھے راس آئی نہ رُت کوئی نہ وہ ہجر کی نہ وصال کی

تھا دلوں کا یہ بھی اک امتحاں کہ تکلفات تھے درمیاں

مجھے ڈر تھا اس کے جواب کا اسے فکر میرے سوال کی

جو چلے تو راہ اماں نہیں جو رکے تو منزلیں کھو گئیں

تِری رہگزر بھی عجیب ہے تِری منزلیں بھی کمال کی

مِرے زخم سارے مہک اٹھے جو چلی ہوائے نہال غم

کوئی دشت جاں سے گزر گیا اٹھی گرد تیرے خیال کی

وہ مجھے ملا بھی تو اس طرح ملیں جیسے شمس و قمر ضیا

تھا جو لمحہ اس کے عروج کا وہ گھڑی تھی میرے زوال کی


ضیا فاروقی

No comments:

Post a Comment