تھکا ہوا دریا
باہر دیکھو کون مرا ہے؟
"ذرا رک جاؤ"
گولیوں کو رک جانے دو
برستی بارش اور چلتی گولیوں کے درمیان
باہر نہیں نکلنا چاہئے
نہ ہی باہر نکلنا چاہئے
جب کوئی مر رہا ہو
ہم اس منظر کی تاب نہیں لا سکتے
نہ گواہی دے سکتے ہیں
جج کے سامنے
نہ جج کو اچھا لگتا ہے کہ
سچ ایک دم سامنے آئے
یا قاتل فوری پکڑا جائے
یا مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ جائے
سب کچھ رفتہ رفتہ ہونا چاہئے
ہجوم کا غصہ ایک نوٹس سے ٹھنڈا ہو جائے گا
گھر لوگوں سے خالی ہیں
لوگ سڑکوں کو گھر نہیں کہہ سکتے
دربدری سفر نہیں ہے
وقت اور لاش کو ٹھنڈا ہونے دو
دریا کو اپنا راستہ لینے دو
اسے گزرنے دو
دریا کے کندھوں پہ
دس لاکھ کیوسک کا ریلا ہے
وہ پھینک آئے گا سمندر میں
پہاڑوں کی بارشیں
گولیوں کا ریلا
گزرے سال کی بوری بند لاش
اور تھکن سے چُور اپنے کندھے
طاہر راجپوت
No comments:
Post a Comment