Wednesday, 30 March 2022

بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک

 بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک

دیکھیں تو آپ ہم سے ناخوش رہیں گے کب تک

اقرار تھا سحر کا ایسا ہوا سبب کیا

جو شام ہونے آئی اور وہ نہ آیا اب تک

محفل میں گل رخوں کے آیا جو وہ پری رو

ہو شکل حیرت اس کی صورت رہے وہ سب تک

بوسہ نظیر! ہم کو دینے کہا تھا اس نے

ہم وقت پا کے جس دم لینے کی پہنچے ڈھب تک

ہر چند تھا نشے میں وہ شوخ تو بھی اس نے

ہرگز ہمارے لب کو آنے دیا نہ لب تک


نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment