Monday, 28 March 2022

بلیک میل؛ ہم سب ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں

 بلیک میل 


ہم سب 

ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں 

ہاضمے کا چُورن لیے بغیر

حرام خوری کے

دستر خوان پر بیٹھے دیکھ رہے ہیں 

کیکڑوں کا تماشا 

بوتل میں بلی چوہے کا کھیل 

سرکس کے فنکاروں کی عملی پرفارمنس 

ہم سب، تنہائی کے جزیروں پر بیٹھے 

محبت کو ننگی گالیاں دے رہے ہیں 

سمندر کا پانی 

میرے زخموں کا مداوا کیوں کرے 

مچھلیاں 

میرے قریب سے( گھور کر) گزرتی ہیں

سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی 

میری آنکھوں کے حیرت کدے پر ہنستی ہے

شاید وسائل کا ذخیرہ 

وافر مقدار میں کنورٹ ہو

سب تک خیال کا رزق پہنچ جائے 

اور ہمارے ہاتھ اشرفیوں سے بھر جائیں 

ہم سب 

سیاحت کے مفہوم سے ناآشنا 

مقسوم لوگ 

لال پری کی تلاش میں 

تسخیر کا منتر ڈھونڈتے ہیں 

سناٹے کی دیمک زدہ بُھربُھری آوازوں میں 

لہروں کا شور سنتے ہوئے  

جنگل سے نجات کا خواب دیکھتے ہیں 


امجد بابر

No comments:

Post a Comment