میرے خوابوں کو سمندر میں بہا دیتا ہے
وہ محبت بھی فرائض میں نبھا دیتا ہے
فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے مگر جانے کیوں
کوئی لمحہ تمہیں منصب سے ہٹا دیتا ہے
میرے تو اپنے رویے ہی مِرے دشمن ہیں
جو بھی ملتا ہے وہ جینے کی دعا دیتا ہے
اس سے خود اپنی بھی صورت نہیں دیکھی جاتی
وقت انسان کو کچھ ایسا بنا دیتا ہے
ہاں یہ سچائی محبت مِرے نعرے تھے مگر
ہر بڑا بول بڑی سخت سزا دیتا ہے
آج دیکھوں تو ذرا دریا دلی بھی اس کی
وہ مجھے زندگی بھر کے لیے کیا دیتا ہے
حنا سمیع
No comments:
Post a Comment