آسمان اور ساگر جیسی نیلی آنکھوں میں
جادو سی کیا چیز ہے جانے اس کی آنکھوں میں
سرگوشی سی کرتا لہجہ، بوجھل سی آواز
ہلکا ہلکا وصل کا نشہ، گہری آنکھوں میں
کب سے سوچی باتیں کیسے یاد نہیں رہتیں
میری آنکھوں سے تم دیکھو اپنی آنکھوں میں
رہ رہ کر کیوں دل ساگر میں لہریں اٹھتی ہیں
چاندنی جیسی چیز ہے کیا ان جھکتی آنکھوں میں
گھور اندھیری شب میں جو ایک شخص نے دیکھا تھا
دیکھو اب وہ خواب ہے روشن کتنی آنکھوں میں
پھیل گیا تھا وہ ایک لمحہ امجد صدیوں پر
سمٹ رہی تھی دنیا دو شرمیلی آنکھوں میں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment