بہت ممکن تھا
میرے پاؤں، میرے زیست کے
کانٹے نکل جاتے
بہت ممکن تھا
میری راہ کے پتھر پگھل جاتے
جو دیواریں میرے رستے میں حائل تھیں
میرے آگے سے ہٹ جاتیں
اگر تم آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتے
کوہساروں کی طرف اک پل
چٹانیں اک تمہاری جنبش ابرو سے کٹ جاتیں
بہت ممکن تھا
انگاروں بھری اس زندگانی میں
تمہارے پاؤں کے اجلے کنول کھِلتے
رفاقت کی سنہری جھیل میں
دونوں کے عکس ضوفشاں بنتے
بس اک خواب مسلسل کی فضا رہتی
ہماری روح کب ہم سے
خفا رہتی
یہ سب کچھ عین ممکن تھا
اگر تم مجھ کو مل جاتے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment