Tuesday 29 March 2022

کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے

 کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے

کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے

وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے

ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے

وہ ہجر ہو کہ تِرے وصل کا کوئی لمحہ

وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے

جو اس سے پہلے بھی شیشے میں بال آیا ہو

تو دل کسی نئی الفت سے ڈر ہی جاتا ہے

چڑھا ہوا کوئی دریا ہو یا کہ نشہ ہو

یشب کبھی نہ کبھی تو اتر ہی جاتا ہے


یشب تمنا

No comments:

Post a Comment