مرکز گریز خواب کی آہٹ پہ بات ہو
یعنی شبِ خمار کی چوکھٹ پہ بات ہو
جاگے تو آفتاب کی برکات پر کلام
سوئے تو کائنات کی کروٹ پہ بات ہو
پھر گفتگو میں آ گئیں پرکھوں کی پگڑیاں
میں چاہتا بھی تھا تِرے گھونگھٹ پہ بات ہو
رنجش کا تذکرہ ہو رفاقت کے ذیل میں
پیشانئ حیات کی سلوٹ پہ بات ہو
عمرِ رواں میں عرصۂ رحمت کا خط کھِچے
ہر ایک زاویے سے تریسٹھ پہ بات ہو
کب تک میں اضطراب کی آسودگی سہوں
لازم ہے اب قرار کے جھنجھٹ پہ بات ہو
مدثر عباس
No comments:
Post a Comment