Thursday, 31 March 2022

فراق جب سے تم مل کر بچھڑے ہو

 فراق


لبوں پہ جعلی منہدم مسکراہٹ چسپاں ہے 

مگر

روح کو چھلنی کرنے والے 

ناسور زخموں کی تاویل کرنا ممکن نہیں

آنکھیں قبرستان میں منتقل ہو چکی ہیں 

جس میں لا تعداد 

معصوم خواہشوں، خوابوں کی لاشیں مدفن ہیں

درد و ہجر کی کئی تصاویر 

محرور قلب کی دیوار و در پہ آویزاں ہیں 

جن کو اشکبار نینوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی 

روز و شب ہزاروں مرتبہ محسوس کرنا پڑتا ہے

ماتھے سے نصیبہ وری کہ مہر ہٹا کر 

بدبختی کی گہری کالک ثبت کر دی گئی ہے 

چشم رمدی سے اشکوں کی روانی پیہم جاری ہے

مجھ میں فقط اذیتوں کا بسیرا ہے

جب سے تم مل کر بچھڑے ہو

ہاں، جب سے تم مل کر بچھڑے ہو


سیمی چوہدری

No comments:

Post a Comment