فراق
لبوں پہ جعلی منہدم مسکراہٹ چسپاں ہے
مگر
روح کو چھلنی کرنے والے
ناسور زخموں کی تاویل کرنا ممکن نہیں
آنکھیں قبرستان میں منتقل ہو چکی ہیں
جس میں لا تعداد
معصوم خواہشوں، خوابوں کی لاشیں مدفن ہیں
درد و ہجر کی کئی تصاویر
محرور قلب کی دیوار و در پہ آویزاں ہیں
جن کو اشکبار نینوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی
روز و شب ہزاروں مرتبہ محسوس کرنا پڑتا ہے
ماتھے سے نصیبہ وری کہ مہر ہٹا کر
بدبختی کی گہری کالک ثبت کر دی گئی ہے
چشم رمدی سے اشکوں کی روانی پیہم جاری ہے
مجھ میں فقط اذیتوں کا بسیرا ہے
جب سے تم مل کر بچھڑے ہو
ہاں، جب سے تم مل کر بچھڑے ہو
سیمی چوہدری
No comments:
Post a Comment