اس سے بڑھ کر تو نہیں کوئی قیامت صاحب
عمر گزری نہ ہوئی شرحِ محبت صاحب
ہونے رخصت جو لگا دردِ محبت صاحب
ساز اک چھیڑ گیا پھر غمِ فرقت صاحب
اڑ گئے شاخِ تمنا سے یہ پنچھی کہہ کر
کھا گئی تیرا چمن گردِ کدورت صاحب
پسِ زنگار کیا ہے سبھی چہروں نے قیام
آئینہ کیسے دکھاتا کوئی صورت صاحب
دل کے جانے پہ بھی سر پیٹ چکے ہیں لیکن
اور ملی بھی نہیں دستار کی عظمت صاحب
دامنِ یار کو بس سکۂ شہرت سے بھریں
میرے پلڑے میں رکھیں ہجر کی دولت صاحب
رحم آتا ہے مِرے حال پہ اب دشمن کو
عشق میں ایسی ہوئی ہے میری حالت صاحب
دیکھ لے اِتنا اثر نالوں کی تاثیر کا ہے
خیر مقدم مِرا کرتی ہے قیامت صاحب
اکرام قاسمی
No comments:
Post a Comment