Friday, 1 April 2022

اس طور سر عام تماشا نہیں کرتے

 اس طور سرِ عام تماشا نہیں کرتے

تم روز بدل جاتے ہو اچھا نہیں کرتے

رُسوائی کے اسباب مہیا نہیں کرتے

یہ سوچ کے ہم پیار کا چرچا نہیں کرتے

سُوکھے ہوئے پھولوں کو کتابوں سے نکالو

بیتے ہوئے لمحات کا پیچھا نہیں کرتے

کرتے ہیں یہ کوشش کہ ہمیشہ رہیں ہم دم

جینے کی تِرے بعد تمنا نہیں کرتے

تتلی کی محبت نے مِرے باندھ دیے ہاتھ

اب شاخ سے پھولوں کو یہ توڑا نہیں کرتے

اسبابِ غزل کے لیے کچھ زخم ہرے ہوں

چاہت میں ملے درد بھلایا نہیں کرتے

‌ پتھر نہ بنا دے یہ طلسمات کی وادی

الفت میں پلٹ کر کبھی دیکھا نہیں کرتے

رکھ دیتی ہوں گلدان میں کاغذ کے بنے پھول

شوبھا تو بڑھا دیتے ہیں مہکا نہیں کرتے

‌ آسیب زدہ ہوتا ہے الماس! شجر جو

اس پر تو پرندے بھی بسیرا نہیں کرتے


الماس کبیر جاوید

No comments:

Post a Comment