رعنائیاں غضب کی غضب کا جمال تھا
ان پر نظر کا ٹکنا تبھی تو محال تھا
یوں بیخودی میں اٹھتے رہے پاؤں جو مِرے
ہر رقص میں یہ جذبِ عطا کی دھمال تھا
میری یہ خود سری تو اثاثہ بنا مِرا
پروازِ شوق میرا یہ اپنی مثال تھا
وہ باغ کے نظارے نہ تھے مِرے واسطے
فردوس میں چہار سُو قحط۔ رجال تھا
ہم کو ذرا خبر نہ ملی وہ رہے خفا
پھر بھی ہوا جناب وفا کا سوال تھا
دروازے بام میں نہ ملیں تو سمجھ پیا
اب شہر پر تِرے بھی گرا کچھ وبال تھا
امبر! خیال گو یہ ملا تھا نیا، مگر
فن بھی تِرا ابھی تو نہایت کمال تھا
شہباز امبر رانجھا
No comments:
Post a Comment