Wednesday, 30 March 2022

رعنائیاں غضب کی غضب کا جمال تھا

رعنائیاں غضب کی غضب کا جمال تھا

ان پر نظر کا ٹکنا تبھی تو محال تھا

یوں بیخودی میں اٹھتے رہے پاؤں جو مِرے

ہر رقص میں یہ جذبِ عطا کی دھمال تھا

میری یہ خود سری تو اثاثہ بنا مِرا

پروازِ شوق میرا یہ اپنی مثال تھا

وہ باغ کے نظارے نہ تھے مِرے واسطے

فردوس میں چہار سُو قحط۔ رجال تھا

ہم کو ذرا خبر نہ ملی وہ رہے خفا

پھر بھی ہوا جناب وفا کا سوال تھا

دروازے بام میں نہ ملیں تو سمجھ پیا

اب شہر پر تِرے بھی گرا کچھ وبال تھا

امبر! خیال گو یہ ملا تھا نیا، مگر

فن بھی تِرا ابھی تو نہایت کمال تھا


شہباز امبر رانجھا

No comments:

Post a Comment