پنجرہ ہے
اک شہزادی کی خواب سرا میں
سونے کا اک پنجرہ ہے
اک بے سُر بے رنگ پنچھی تها
جو گیتوں سے آباد ہوا
جو شہزادی کے رنگوں سے ایجاد ہوا
اس پنجرے میں آزاد ہوا
اک دنیا ہے
پنجرے کی اپنی دنیا ہے
جو باہر کی دنیا سے بڑھ کر ہری بهری اور
بڑی بڑی ہے
اڑتا ہے
وہ پنچھی اس میں اڑتا ہے
وہ اڑتے اڑتے تھک جاتا ہے
لیکن اس پنجرے کی وسعت کم نہیں ہوتی
شہزادی سے اس کی محبت کم نہیں ہوتی
لوٹ آتا ہے
شہزادی کا دل چُگتا ہے
اور پھر پنجرے کی دھرتی سے نظم نما
اک گیت اُگتا ہے
گیت جسے پھر شہزادی کے لب ملتے ہیں
پنجرے سے باہر یہ موسم کب ملتے ہیں
ذیشان حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment