Thursday 31 March 2022

شہزادی کی خواب سرا میں سونے کا اک پنجرہ

 پنجرہ ہے


اک شہزادی کی خواب سرا میں 

سونے کا اک پنجرہ ہے

اک بے سُر بے رنگ پنچھی تها

جو گیتوں سے آباد ہوا

جو شہزادی کے رنگوں سے ایجاد ہوا

اس پنجرے میں آزاد ہوا

اک دنیا ہے

پنجرے کی اپنی دنیا ہے

جو باہر کی دنیا سے بڑھ کر ہری بهری اور

بڑی بڑی ہے

اڑتا ہے

وہ پنچھی اس میں اڑتا ہے

وہ اڑتے اڑتے تھک جاتا ہے

لیکن اس پنجرے کی وسعت کم نہیں ہوتی

شہزادی سے اس کی محبت کم نہیں ہوتی

لوٹ آتا ہے

شہزادی کا دل چُگتا ہے

اور پھر پنجرے کی دھرتی سے نظم نما

اک گیت اُگتا ہے

گیت جسے پھر شہزادی کے لب ملتے ہیں

پنجرے سے باہر یہ موسم کب ملتے ہیں


ذیشان حیدر نقوی

No comments:

Post a Comment