Thursday, 31 March 2022

دل کو رہین لذت درماں نہ کر سکے

 دل کو رہینِ لذتِ درماں نہ کر سکے 

ہم ان سے بھی شکایتِ ہجراں نہ کر سکے 

اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو 

پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے 

مہنگی تھی اس قدر تِرے جلووں کی روشنی 

ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے 

بچھڑے رہے تو اور بھی رسوا کریں گے لوگ 

تم بھی علاج گردشِ دوراں نہ کر سکے 

دل ان کے ہاتھ سے بھی گیا ہم سے بھی گیا 

شاید وہ پاسِ خاطرِ مہماں نہ کر سکے 

ان پر بھی آشکار ہو کیوں اپنے دل کا حال 

ہم اس متاعِ درد کو ارزاں نہ کر سکے 

اعظم! ہزار بار لٹے راہِ عشق میں 

لیکن کبھی شکایتِ دوراں نہ کر سکے


اعظم چشتی

No comments:

Post a Comment