جہاں سے ہم جدا ہوئے
جیسے
ارتقا کی بھول بھلیوں میں
ایک نوع دوسری سے جدا ہوتی ہے
جیسے
ہومو سیپینز سے نےاندرلز جدا ہوئے
اور بڑے ببونز سے ہمارے جیسے انسان
جیسے
میمتھ ڈائناسورز سے چھوٹی چھپکلیاں جدا ہوئیں
ہم جہاں سے جدا ہوئے وہ ایک جدائی نہیں تھی
وہ ایک خوشبو نہیں تھی
جو پھول سے بچھڑ گئی
وہ ایک خواب نہیں تھا
جو نیند سے ٹوٹ گیا
وہ ہرن کا بچہ نہیں تھا جو ایک قافلے سے جدا ہوا
یا ایک غلام
جو ایک سے دوسرے آقا کو بک گیا
یا روشنی
جو رات کو سوتا دیکھ کر واپس اپنے مرکز کو لوٹ گئی
جہاں سے ہم جدا ہوئے
جیسے ایک چاند تھا جو چمکتا چمکتا بجھ گیا
ایک سورج تھا جو اپنی راہ سے ہٹ گیا
ایک بلیک ہول تھا جو نہ تمہاری نہ میری نظر میں تھا
کبھی کسی خواب میں وہ نہیں آیا
کسی کتاب، سائنسی نظریے میں اس کا ذکر نہیں تھا
اس کے پاس سے
روشنی کی طرح خاموشی سے گزرتے ہوئے ہم جدا ہوئے
جہاں سے ہم جدا ہوئے
وہاں جدائی بنتی نہیں تھی
مچھلی کو میمل بننے کی جلدی کیا تھی
زمین کو سورج سے بچھڑنے کی جلدی کیا تھی
میمل سے پرندے کیوں نکلے
چھپکلی کیسے دیوار پہ چڑھ گئی
اور بچ گئی
مینڈک کیوں کنویں میں کود گئے
چمپنزی کیوں چھوٹے بندروں کو کھانے لگے
جہاں سے ہم جدا ہوئے
جیسے، خشکی سے سمندر جدا ہوئے
اور سمندر سے جزیرے جدا ہوئے
ستاروں سے سیاروں کے راستے جدا ہوئے
جہاں سے ہم جدا ہوئے
وہ زمین کے ابتدائی دنوں کا موسم تھا
جہاں خود خدا تخلیق میں جدائی بانٹ رہا تھا
ہمیں خدا کی مرضی کے ساتھ راضی ہونا ہو گا
جہاں سے ہم جدا ہوئے
وہاں سے ایک نظم رونا شروع کر دیتی ہے
پرندے روتے ہیں
ستاروں کے انسو کون پونچھے
چھپکلی دیوار سے اترتی نہیں
اسے خدا آواز دیتا ہے
نی ایندرلز مٹ چکے ہیں
درختوں کے جھنڈ ببونز سے خالی ہیں
زمین کی آنکھوں کو ڈائنو سارز کی شکلیں ابھی یاد ہیں
جہاں سے ہم جدا ہوئے
وہاں سے ہر نوع فنا کے راستے پہ گامزن تھی
طاہر راجپوت
No comments:
Post a Comment