Tuesday 29 March 2022

جہاں سے ہم جدا ہوئے وہاں جدائی بنتی نہیں تھی

 جہاں سے ہم جدا ہوئے


جیسے

ارتقا کی بھول بھلیوں میں 

ایک نوع دوسری سے جدا ہوتی ہے

جیسے

ہومو سیپینز سے نےاندرلز جدا ہوئے 

اور بڑے ببونز سے ہمارے جیسے انسان 

جیسے

میمتھ ڈائناسورز سے چھوٹی چھپکلیاں جدا ہوئیں

ہم جہاں سے جدا ہوئے وہ ایک جدائی نہیں تھی

وہ ایک خوشبو نہیں تھی

جو پھول سے بچھڑ گئی

وہ ایک خواب نہیں تھا

جو نیند سے ٹوٹ گیا 

وہ ہرن کا بچہ نہیں تھا جو ایک قافلے سے جدا ہوا 

یا ایک غلام

جو ایک سے دوسرے آقا کو بک گیا 

یا روشنی

جو رات کو سوتا دیکھ کر واپس اپنے مرکز کو لوٹ گئی 

جہاں سے ہم جدا ہوئے 

جیسے ایک چاند تھا جو چمکتا چمکتا بجھ گیا 

ایک سورج تھا جو اپنی راہ سے ہٹ گیا

ایک بلیک ہول تھا جو نہ تمہاری نہ میری نظر میں تھا

کبھی کسی خواب میں وہ نہیں آیا 

کسی کتاب، سائنسی نظریے میں اس کا ذکر نہیں تھا 

اس کے پاس سے

روشنی کی طرح خاموشی سے گزرتے ہوئے ہم جدا ہوئے  

جہاں سے ہم جدا ہوئے

وہاں جدائی بنتی نہیں تھی 

مچھلی کو میمل بننے کی جلدی کیا تھی 

زمین کو سورج سے بچھڑنے کی جلدی کیا تھی 

میمل سے پرندے کیوں نکلے

چھپکلی کیسے دیوار پہ چڑھ گئی

اور بچ گئی 

مینڈک کیوں کنویں میں کود گئے 

چمپنزی کیوں چھوٹے بندروں کو کھانے لگے 

جہاں سے ہم جدا ہوئے 

جیسے، خشکی سے سمندر جدا ہوئے 

اور سمندر سے جزیرے جدا ہوئے

ستاروں سے سیاروں کے راستے جدا ہوئے 

جہاں سے ہم جدا ہوئے

وہ زمین کے ابتدائی دنوں کا موسم تھا 

جہاں خود خدا تخلیق میں جدائی بانٹ رہا تھا

ہمیں خدا کی مرضی کے ساتھ راضی ہونا ہو گا 

جہاں سے ہم جدا ہوئے

وہاں سے ایک نظم رونا شروع کر دیتی ہے 

پرندے روتے ہیں

ستاروں کے انسو کون پونچھے

چھپکلی دیوار سے اترتی نہیں

اسے خدا آواز دیتا ہے

نی ایندرلز مٹ چکے ہیں

درختوں کے جھنڈ ببونز سے خالی ہیں 

زمین کی آنکھوں کو ڈائنو سارز کی شکلیں ابھی یاد ہیں 

جہاں سے ہم جدا ہوئے

وہاں سے ہر نوع فنا کے راستے پہ گامزن تھی 


طاہر راجپوت

No comments:

Post a Comment