مجھے اب کسی سے محبت نہیں ہوتی
میرے پاس دل بہلانے کو بہت سے لوگ ہیں
راتیں جاگنے کے لیے کئی کتابیں جمع کر رکھی ہیں
دن میں کسی نہ کسی بات پر ہنس لیتی ہوں
مجھے اب کسی سے شکایت نہیں ہوتی
تم بدل گئی ہو ایسے جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں
میں چڑ کر انکار کرتے بات بدل لیتی ہوں
محبت صرف لکھنے تک محدود کر لی ہے
مجھے اب کسی کی عادت نہیں ہوتی
پرانی باتیں یاد آتی ہیں جب تو مسکراتی ہوں
بھلے دن تھے وہ، کہتے گہری سانس لیتی ہوں
تنہائی کے پرندے کو بے پر کر بیٹھی ہوں
مجھے اب ہجوم کی ضرورت نہیں ہوتی
کچھ سہیلیاں جن سے نت نئی باتیں ہوتی تھیں
اب مصروف رہتی ہیں، مجھے بھی فرصت نہیں ملتی
دل میں امڈتی تکلیفیں اب نوکِ زباں نہیں کرتی
سنو، مجھے اب اذیت نہیں ہوتی
بشریٰ ایوب خان
No comments:
Post a Comment