Tuesday 29 March 2022

مجھے اب کسی سے محبت نہیں ہوتی

 مجھے اب کسی سے محبت  نہیں ہوتی 


میرے پاس دل بہلانے کو بہت سے لوگ ہیں

راتیں جاگنے کے لیے کئی کتابیں جمع کر رکھی ہیں 

دن میں کسی نہ کسی بات پر ہنس لیتی ہوں 

مجھے اب کسی سے شکایت نہیں ہوتی 

تم بدل گئی ہو ایسے جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں 

میں چڑ کر انکار کرتے بات بدل لیتی ہوں

محبت صرف لکھنے تک محدود کر لی ہے 

مجھے اب کسی کی عادت نہیں ہوتی

پرانی باتیں یاد آتی ہیں جب تو مسکراتی ہوں 

بھلے دن تھے وہ، کہتے گہری سانس لیتی ہوں 

تنہائی کے پرندے کو بے پر کر بیٹھی ہوں 

مجھے اب ہجوم کی ضرورت نہیں ہوتی

کچھ سہیلیاں جن سے نت نئی باتیں ہوتی تھیں

اب مصروف رہتی ہیں، مجھے بھی فرصت نہیں ملتی

دل میں امڈتی تکلیفیں اب نوکِ زباں نہیں کرتی 

سنو، مجھے اب اذیت نہیں ہوتی


بشریٰ ایوب خان

No comments:

Post a Comment