درد کی لہر تھی گزر بھی گئی
اس کے ہمراہ چشم تر بھی گئی
اک تعلق سا تھا سو ختم ہوا
بات تھی ذہن سے اتر بھی گئی
ہم ابھی سوچ ہی میں بیٹھے ہیں
اور وہ آنکھ کام کر بھی گئی
ہجر سے کم نہ تھی وصال کی رت
آئی بے چین سی گزر بھی گئی
ضبط کا حوصلہ بہت تھا مگر
اس نے پوچھا تو آنکھ بھر بھی گئی
یشب تمنا
No comments:
Post a Comment