Thursday 31 March 2022

درد کی لہر تھی گزر بھی گئی

 درد کی لہر تھی گزر بھی گئی

اس کے ہمراہ چشم تر بھی گئی

اک تعلق سا تھا سو ختم ہوا

بات تھی ذہن سے اتر بھی گئی

ہم ابھی سوچ ہی میں بیٹھے ہیں

اور وہ آنکھ کام کر بھی گئی

ہجر سے کم نہ تھی وصال کی رت

آئی بے چین سی گزر بھی گئی

ضبط کا حوصلہ بہت تھا مگر

اس نے پوچھا تو آنکھ بھر بھی گئی


یشب تمنا

No comments:

Post a Comment