Thursday, 31 March 2022

پھر وہی شب کے سرابوں کا چلن پھر وہی خواب نما

 پھر وہی شب کے سرابوں کا چلن


پھر وہی خواب نما

شب کے سرابوں کا چلن جاری ہے

شب کہ اس بار صفیرانِ چمن

اور بھی کچھ بھاری ہے

گل پہ شبنم پہ عنادل پہ

صبا اور ہوا سب پہ

وہی سحر الم طاری ہے

پھر اسی طرز کہن

میں نیا انداز فسوں کاری ہے

سخت مشکل میں ہیں

اے جانِ وفا، ارض وطن

حرفِ مقصود رقیبوں کو گوارہ بھی نہیں

کیا کریں صبر کا یارا بھی نہیں

کیسے تعمیر کی تزئین کی پھر بات کریں

خونِ دل نذر گرانبارئ اوقات کریں

ہم تہی دست جو آہوں میں اثر مانگتے ہیں

سبز و شاداب حسیں خلد نظر مانگتے ہیں

اپنی مجبور تمنا کا نگر مانگتے ہیں

ایک بے داغ سحر مانگتے ہیں


اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment