Monday 28 March 2022

تم گھٹا سمجھے تھے جس کو وہ کوئی بادل نہ تھا

 تم گھٹا سمجھے تھے جس کو وہ کوئی بادل نہ تھا

تھا کلیجے کا لہو وہ آنکھ کا کاجل نہ تھا

فاصلے کیوں ہو گئے اتنی ملاقاتوں کے بعد

دو قدم ہی ساتھ چلنا اتنا تو مشکل نہ تھا

رات دن کی داستاں مجھ سے اے تنہائی نہ پوچھ

دل کبھی بھی اس کی یادوں سے مگر غافل نہ تھا

جان جاں اب آپ چاہے جو کہیں مجھ کو فقط

آج کی شب آپ سے ملنے کا میرا دل نہ تھا

اب تو بس بے درد لمحے شامل تقدیر ہیں

ویسے میرا دل کبھی بھی اس قدر گھائل نہ تھا

پھول کا نذرانہ لے کر آیا اس انداز سے

ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ مرا قاتل نہ تھا

میرے ہونٹوں پہ ہمیشہ پیاس کے صحرا رہے

تھا گھٹا سا مجھ پہ لیکن ٹوٹتا بادل نہ تھا

چھن چھنا کے دور تک آواز گونجی زور سے

ٹوٹ کے بکھرا ہے سپنا ہاں مگر بسمل نہ تھا

عشق نے جاناں یہ کیا جادو سا ہم پہ کر دیا

دل کبھی بھی اس رویے کی طرف مائل نہ تھا

کچھ گلے شکوے شکستہ دل سے کر لینا کبھی

سسکیوں سے یوں بھی رعنا تم کو کچھ حاصل نہ تھا


رعنا حسین چندا

No comments:

Post a Comment