تم گھٹا سمجھے تھے جس کو وہ کوئی بادل نہ تھا
تھا کلیجے کا لہو وہ آنکھ کا کاجل نہ تھا
فاصلے کیوں ہو گئے اتنی ملاقاتوں کے بعد
دو قدم ہی ساتھ چلنا اتنا تو مشکل نہ تھا
رات دن کی داستاں مجھ سے اے تنہائی نہ پوچھ
دل کبھی بھی اس کی یادوں سے مگر غافل نہ تھا
جان جاں اب آپ چاہے جو کہیں مجھ کو فقط
آج کی شب آپ سے ملنے کا میرا دل نہ تھا
اب تو بس بے درد لمحے شامل تقدیر ہیں
ویسے میرا دل کبھی بھی اس قدر گھائل نہ تھا
پھول کا نذرانہ لے کر آیا اس انداز سے
ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ مرا قاتل نہ تھا
میرے ہونٹوں پہ ہمیشہ پیاس کے صحرا رہے
تھا گھٹا سا مجھ پہ لیکن ٹوٹتا بادل نہ تھا
چھن چھنا کے دور تک آواز گونجی زور سے
ٹوٹ کے بکھرا ہے سپنا ہاں مگر بسمل نہ تھا
عشق نے جاناں یہ کیا جادو سا ہم پہ کر دیا
دل کبھی بھی اس رویے کی طرف مائل نہ تھا
کچھ گلے شکوے شکستہ دل سے کر لینا کبھی
سسکیوں سے یوں بھی رعنا تم کو کچھ حاصل نہ تھا
رعنا حسین چندا
No comments:
Post a Comment