گاؤں سے چل پڑے تجھے ملنے کے چاؤ میں
دریا بھی ساتھ رکھ لیا کاغذ کی ناؤ میں
تو جو نہیں تو آج پلٹنا نہیں مجھے
دنیا بھی پھینک دیتا ہوں آخر کے داؤ میں
شہ رگ سے ہے قریب محبت کا حادثہ
اللہ کو بھی آنا پڑے گا بچاؤ میں
دنیا کو صبر آ بھی چکا میرے عشق پر
بس کچھ عزیز دوست ابھی تک ہیں تاؤ میں
بچوں کے واسطے کوئی روزی کمائیے
اس زندگی کو بیچیے ردی کے بھاؤ میں
ہندو نہیں ہوں شکر ہے ورنہ یہ رشتہ دار
یہ شاعری بھی پھینکتے میرے الاؤ میں
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment