Wednesday 30 March 2022

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

 درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ

یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں

میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ

ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے

نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ

دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو

جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ

وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت

دوستو! کوئی تو الزام نیا دے جاؤ

کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انور

دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ


انور مسعود

No comments:

Post a Comment