Monday, 28 March 2022

کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے

کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے

کچھ آرزوؤں کا بھی احتساب باقی ہے

یہ کیا کہ شب کی اسیری میں قید ہو جائیں

یقیں ہے جبکہ رخِ ماہتاب باقی ہے

پڑاؤ ڈال رہے ہیں سحر کے اگلے قدم

مِری زمیں میں ابھی اضطراب باقی ہے

میں کیسے مان لوں اے جاں کہ حرفِ تازہ میں

تِرے جنوں کا وہ پہلا نصاب باقی ہے


نصرت زہرا

No comments:

Post a Comment