Monday 28 March 2022

موت کیسے زندگی کو آ کے لیتی ہے دبوچ

چل بسا جعفر بلوچ


موت کیسے زندگی کو آ کے لیتی ہے دبوچ

ہو غلط یا رب! سُنا ہے چل بسا جعفر بلوچ

مُنفرد وہ شخص تھا اور مُنفرد اس کی تھی سوچ

چل بسا جعفر بلوچ


اس میں کیا شک ہے، وہ شاعر تھا نہایت ارجمند

کنزِ مخفی کے گُہر، اور انجمِ فکرِ بلند

اس کا شہبازِ تخیّل عرش سے لاتا تھا نوچ

چل بسا جعفر بلوچ


ناروا ہے بُخل اب تو اس کے استحسان میں

تھا وہ یکتا شاعری اور نثر کے میدان میں

غالب اور اقبال کو اپنا سمجھتا تھا وہ کوچ

چل بسا جعفر بلوچ


مُدت العُمر اس کو دیکھا ہم نے راہِ خیر پر

مسلک اس کا صُلح و امن و آشتی ہی تھا مگر

دُشمنانِ علم و دانش کو وہ لیتا تھا دبوچ

چل بسا جعفر بلوچ


وہ سراپا تھا نیاز و عجز و اخلاص و ادب

جب کبھی ہوتا تھا لیکن سخت مغلوب الغضب

اللہ بخشے، کر لیا کرتا تھا وہ گالی گلوچ

چل بسا جعفر بلوچ


حُور و غُلماں خُلد میں ہر آن بہلائیں اسے

اور کُنجِ قبر میں ایذاء نہ پہنچائیں اسے

اہلِ شر، کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو، کاکروچ

چل بسا جعفر بلوچ


جعفر بلوچ

No comments:

Post a Comment