ظُلمتیں چھٹنے کو آغاز سحر کافی ہے
سر جھُکانے کے لیے ایک ہی در کافی ہے
کوئی تلوار اٹھاؤ،۔ نہ ہی نیزہ پکڑو
قتل کرنے کو صنم تیر نظر کافی ہے
میرے روکے نہ رکے گا تو بھلا کیوں روکوں
اب بچھڑنے کو تِرا عزمِ سفر کافی ہے
ہوں مبارک یہ محلات یہ دولت تجھ کو
یار! ہم خانہ بدوشوں کو سفر کافی ہے
جس کی چھاؤں میں فلک زاد بھی آ کر بیٹھیں
میرے گاؤں کو وہی ایک شجر کافی ہے
گھر سے نکلوں تو سدا سایہ فگن رہتی ہیں
ماں! مجھے تیری دعاؤں کا اثر کافی ہے
جیسی کرنی ہے یہاں ویسی وہاں بھرنی ہے
خیر کو خیر بہت، شر کو شرر کافی ہے
رضوان انجم
No comments:
Post a Comment