Monday 28 March 2022

دلوں سے اٹھتا ہوا اک طوفان دیکھا ہے

 دلوں سے اٹھتا ہوا اک طوفان دیکھا ہے

جہاں بکتے تھے بدن اب ایمان دیکھا ہے

خزاں کا موسم پھر چمن میں نہیں لوٹا کہ

بہاروں میں اس نے اجڑتا گلستان دیکھا ہے

اپنے شہر کے حالات کی جن کو نہیں خبر

دعویٰ ہے ان کا ہم نے اک جہان دیکھا ہے

پھولوں کا ہار پہن کے مسکرانے والوں نے

کہاں کانٹوں میں الجھا کسی کا گریبان دیکھا ہے

کل پھر مہندی کی آرزو لیے جو مر جائے گی

ایسی ہی اک لڑکی کو میں نے جوان دیکھا ہے


نوشیروان انجم

No comments:

Post a Comment