جینے کی ہو بات تو بولو ورنہ، چھوڑو جانے دو
مرنے کی باتوں پہ بھی کیا مرنا، چھوڑو جانے دو
اک مدت کے بعد اچانک مل کر باتیں کیا کرتے
اتنا کچھ کہنے کو تھا کہ سوچا، چھوڑو جانے دو
آنکھوں ہی آنکھوں میں کتنے منظر بنتے تھے اور پھر
منظر کش آنکھوں سے بہتا جھرنا، چھوڑو جانے دو
تم مجھ کو اپنا کہہ دیتے تو مجھ کو اچھا لگتا
بس اچھا لگنے خاطر کیا کہنا، چھوڑو جانے دو
جذبوں کی پُرسش کی کیسی ترکیبیں تھیں، مر جاواں
پاس بلانا اور پھر کہنا؛ اچھا! چھوڑو جانے دو
تحریم چودھری
No comments:
Post a Comment